اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اْٹھاتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اْٹھاتے گزری
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﻭ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺴﮯ،ﺟﻮﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﮐﺴﮯ ﻣﻠﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ؟
ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺲ ﮐﻮ ﻋﺬﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﻧﺌﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﮧ ﺟﻮ ﭼﻞ ﭘﮍﮮ ﮨﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺵ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ
ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺍُﺟﮍﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ؟
ﯾﺎ ﮐﺲ ﮐﮯ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻭﻋﺪﮮ
ﻧﺒﮭﺎﺋﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ،ﺑﮭﻼﺋﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ؟
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺸﯿﻤﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﻧﻮ ﺣﺴﺎﺏ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﺩُﮐﮭﯽ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮑﺎﺭ ﺳﻨﻨﺎ
ﺑﻨﺎ ﻟﻮ ﺩﺍﺋﻢ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﺍﭘﻨﺎ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺘﻨﺎ؟
ﯾﺎ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﮨﮯ ﺛﻮﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﻭ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
کسی کے لمس کی تاثیر ہے ، کہ برسوں بعد
میری کتابوں میں اب بھی گلاب جاگتے ہیں
اخلاق بندوی
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
وہ عہد غم کی کاہش ہائے بے حاصل کو کیا سمجھے
جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
یہاں وابستگی واں برہمی کیا جانیے کیوں ہے
نہ ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم ان کی ادا سمجھے
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
تمہاری ہر نظر سے منسلک ہے رشتۂ ہستی
مگر یہ دور کی باتیں کوئی نادان کیا سمجھے
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
نہ پوچھو عہد الفت کی بس اک خواب پریشاں تھا
نہ دل کو راہ پر لائے نہ دل کا مدعا سمجھے
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
مِل نہ پائے وہ کہیں جِن کے تھے حالات الگ
عشق ہوتا تو دِکھا دیتا کرامات الگ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
چار کاتب ہیں جو ہم دوش ہمارے مخبر
تجھ سے ہوتی بھی تو کیا خاک ملاقات الگ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
فرطِ جذبات میں مِلتے تھے جو ہم آپس میں
کاش! ہوتے نہ ہمارے بھی خیالات الگ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
کسی کے ہجر سے آگے بڑھی نہ عمر مری
وہ رات بیت گئی نقشؔ رتجگا نہ گیا
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
نوعِ اِنساں ہے جو اشکال میں محبوس ہنوز
ہیں وہ خواتین الگ اور یہ حضرات الگ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
جب دردِ محبت کا مرے پاس نہیں تھا
میں کون ہوں کیا ہوں مجھے احساس نہیں تھا
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
چاہے جانے کی تمنّا میں تجھے چاہا تھا
کیوں تِری ہم پہ رہیں یونہی عنایات الگ
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
Bookmarks