یہاں دسمبر کے حوالے سے شعر شیئر کریں۔
یاد یار کا موسم اور سرد ہواؤں کا عالم
اے دل تیار ہو جا دسمبر آنے والا ہے
یہاں دسمبر کے حوالے سے شعر شیئر کریں۔
یاد یار کا موسم اور سرد ہواؤں کا عالم
اے دل تیار ہو جا دسمبر آنے والا ہے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
دسمبر کی سرد راتوں میں اک آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
اک شہر فرنگاں ہے اور ماہِ دسمبر ہے
مشکل سبھی رستے ہیں موسم بھی ستمگر ہے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤ گے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
تری یاد کی برف باری کا موسم
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں ہے دسمبر اکیلے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
کاندھے پہ لے لوں دھند کا امبر لپیٹ کر
بدن پہ آج پہن لوں دسمبر لپیٹ کر
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
منصور آفاق
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
دسمبر جب بھی ٓاتا ہے یہی انجام ہوتا ہے
کبھی کھانسی کبھی نزلہ کبھی زکام ہوتا ہے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
کہا اس نے سنو جاناں دسمبر آن پہنچا ھے
کہا میں نے سنو جاناں میرے گھر بھی کیلنڈر ہے
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
مجھ سے پوچھو کبھی تکمیل نہ ہونے کی چبھن
مجھ پے بیتے ہیں کئی سال دسمبر کے بغیر
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
اپنی آنکھوں کو قناعت کی طرف لا اے شخص
اس سے پہلے کہ کوئی خواب بڑا ہو جائے
وہی موسم ، وہی لمحے ، وہی آنکھیں ، وہی دل بھی
دسمبر چھوڑ جاتا ہے، نئی ایک داستان غم کی
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
صدیوں تلک محیط ہے یہ ہجر کا غبار
صدمہ فقط یہ ماہِ دسمبر تلک نہیں
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیںلوگ یونہی وفا نہیں کرتے
Bookmarks