ٹرن ٹرن۔۔فون کی بیل بجنے پر ٹیم بھائی نے مصروف سے انداز میں ہاتھ رسیور کی جانب بڑھایا اور نظریں چونکہ سامنے پڑے پانچ عدد
کمپیوٹروں اور لیپ ٹاپس کی جانب تھیں لہذا جلدی میں رسیور کان کو لگا کر ہیلو کہا۔
مگر یہ کیا دوسری جانب سے جواب ندارد۔ جب بار بار ہیلو کہنے پر بھی کوئی اواز سنائی نہ دی تو جھنجھلاہٹ میں رسیور کو دیکھا اور یہ کیا۔ٹیم بھائی فورم پر اتنا مگن تھے کہ ٹیلی فون رسیور کی جگہ وائرلیس ماوس کان سے لگا کر ہیلو ہیلو کرتے رہے۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر جلدی سے اصلی رسیور اٹھایا اور دوسری جانب ایک عدد باریک سیٹی نما آواز سن کر اچھل پڑے۔
جیسے کسی جھینگر نے کان میں چیخ مار دی ہو۔آخر بڑی مشکل سے حوصلہ مجتمع کر کے بولے۔سنیئے محترم یہ کون جھینگر نما حضرت ہیں جو دخل در نامعقولات سے ہمیں پریشان کیئے دے رہے۔تو جو جواب ملا اسے سن کر پہلے تو شدید غصے پھر پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اپنے مخصوص انداز میں بولے۔
ٹیم اردوو کا پیغام آپ کو بہترین حالت میں ملے۔جی کس سلسلے میں بات کرنا چاہیں گے۔
آگے سے ایسی آوازیں آنے کا سلسلہ شروع ہوا جیسا چوہا بادام ٹک رہا ہو۔
پھر کچھ دیر بعد وہی آواز آنسووں سے بھرا گئی۔اور ٹیم بھائی گھبرا کر بولے۔
بھئی ترویج اردو کے لیئے ہم یہ کڑوا گھونٹ بھرنے کو بھی تیار ہیں۔بصد خلوص آپکا اپنا۔ٹیم اردو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
جب سے شائستہ کو پتہ چلا تھا کہ ون اردو اوپن ہو گیا ہے۔تو اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد سے ان خاتون کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں
ابھی بھی اپنئ چاندی رنگے بالوں میں اٹھارویں دفعہ خضاب لگا چکی تھیں۔مگر بالوں کی چانددی ہنوز موجود است والا معاملہ تھا۔
تنگ آکر فون اٹھایا اور اپنی سہیلی صائمہ کو کال کی۔ دوسری طرف صائمہ بی ہاتھ میں کنگھی پکڑے جووں کے شکار میں مصروف تھیں اور ہر جوں کے ملنے پر یاہوووووو کاا نعرہ مستانہ لگا کر پھر سے مشن کلین سویپ پر نکل پڑتیں۔اس اثناء میں فون کی بیل ہوئی تو صائمہ جو ابھی ستائسویں جوں مارا ہی چاہتی تھی۔ہڑبڑا گئی اور جوں ہاتھ سے نکل کر تتر ہو گئی۔ خیر فون پہ شائستہ کا نام دیکھ کر کڑوا سا منہ بناتے ہوئے ریسیو کی کال اور کاٹ کھانے والے انداز میں بولیں۔
کیا ہے؟
دوسری طرف شائستہ کی رونی آواز سن کر تھوڑا دل کو نرم کر کے پوچھا سب خیریت تو ہے۔تو شائستہ جو پہلے ہی اپنے رونے تو تھیں۔صائمہ کو ہچکیوں سے روتے ہوئے بتانے لگیں کہ کیسے وہ اب تک اٹھارہ دفعہ خضاب لگا چکی مگر بال ویسے کے ویسے سفید ہیں۔
یہ سن کر صائمہ بھی اپنئ جذبات پہ قابو نہ رکھ سکی اور جھٹ سے اپنی جوں مار مہم جوئی کی داستان سنا دی۔
شائستہ یہ سن کر اور مغموم ہو گئی اور اپنی ننھی سی دانست کے مطابق مشورہ دے ڈالا کہ صائمہ تم ڈی ڈی ٹی چھڑک لو بالوں میں۔اس سے تو سب کیڑے مر جاتے یہ جوئیں کیا چیز ہیں۔
ادھر صائمہ بھی شائستہ کی سہیلی تھی کہنے لگی ہاں شائستہ اور تم اپنے بالوں میں بلیک چیری بلوسم پالش پانی میں مکس کر کے لگاو۔امید ہے افاقہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
آخر کار تقریب کا دن آن پہنچا۔
ون اردو ہال میں چہل پہل عروج پر تھی۔ممبران کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ ایونٹ آرگنائزر حکیم عامر جہاں عرف ٹینی میاں پینٹ کوٹ کے ساتھ طلے والا کھسہ پہنے بڑے طمطراق سے ادھر ادھر آ جا رہے تھے اور ساتھ ہی اپنی منحنی سی سیٹی نما آواز میں مختلف احکامات بھی دے رہے تھے۔
جبھی انکی نظر میں دروازے کی جانب پڑی جہاں عامر شہزاد بمع اپنے دو شہزادوں محمد عبدالرحمن اعر محمد ارحم کے ساتھ موجود تھے۔جب کے انکے ایک ہاتھ میں پیمپرز کا پیکٹ اور دوسرے ہاتھ میں فیڈر اور سریلیک تھا۔
عامر شہزاد کو دیکھتے ہیں عامر جہاں ارےےے عامر کہتے ہوئے چھوٹا سا منہ کھول کر افتاں و خیزاں انکی جانب بڑھے۔مگر اسی دوران ارحم کو کھانسی لگ گئی اور عامر شہزاد نے ارحم کی کمر پر ہاتھ مارا تاکہ کھانسی رک جائے۔ مگر ارحم کے منہ میں موجود چوسنی اڑتی ہوئی عامر جہاں کی جانب کسی میزائل کی طرح بڑھی اور بڑے سلیقے اور قرینے کے ساتھ عامر جہاں کے دہن میں پیوست ہو گئی۔اور چوسنی منہ میں آتے ہیں عامر جہاں نے ایک دم بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا اور ندیدی نظروں سے سریلیک اور فیڈر کو دیکھنے لگے۔
ادھر خسرو بھائی جو دروازے پر سب کو رسیو کر رہے تھے یہ سمجھے کہ عامر جہاں کو کوئی دورہ پڑ گیا یے۔لہذا خسرو بھائی نے فورا" سے پیشتر اپنے پندرہ سال پرانے جوگرزاتارے اور عامر جہاں کو سونگھائے۔ جوگر سونگھنے کی دیر تھی۔کہ عامر جہاں کی آنکھیں بنٹے کی مانند گول گول گھومنے لگیں اور چند ساعتوں کے بعد حکیم عامر جہاں ہوش و خرد کی دنیا میں لوٹ آئے۔
خسرو بھائی کے اس نسخہ ہائے کیمیا پر سب نے خسرو بھائی کو دیکھ کر وکٹری کا نشان بھی بنایا۔
وکٹری کا نشان بھی بنایا۔
اور خسرو بھائی نے جوابا" بس شرما کے دوڑ لگا دی۔
عامر جہاں کے چودہ طبق جوگرز سونگھ کر روشن ہوئے تو اب آگے کی ٹھانی۔
عبداللہ اور یاز بھائی کو جو ایک کونے میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے پایا تو فورا" ہی جا دھرا۔اور ان کے سپرد مہمانوں کے کھانے کا انتظام کر دیا۔
بس پھر کیا تھا۔ یاز بھائی کے زرخیز دماغ سے دھڑا دھڑ بے تکی ریسسیپیز کا نزول ہونے لگا۔اور عبداللہ انکا بہترین معاون ثابت ہو رہا تھا۔
یاز بھائی نے جو مینیو فائنل کیا اس میں مندرجہ ذیل ڈشز شامل کی گئیں
تری والی ہوا
بغیر گھی اور آٹے والے پراٹھے
چکن گمشدہ پلاو
ایک دم سیدھی جلیبی
ابھی چونکے کھانا سرو ہونے میں دیر تھی تو حکیم جالینوس عرف عامر جہاں نے سوچا کے مہمانوں کی خاطر تواضع کولڈ ڈرنکس سے کر لی جائے۔
یہ ذمہ داری بہت سوچ سمجھ کر ایک کونے میں کھڑے بھاگاں جی سے موبائل پر ڈانٹ کھاتے ہاشمی بھائی کو سونپی گئی۔
اس سارے معاملے سے نپٹ کر عامر جہاں نے باہر لان کی راہ لی جہاں مہمان جمع ہو رہے تھے۔ ابھی ایک قدم لان میں رکھا ہی تھا۔ کہ پچاکککک کی آواز کے ساتھ عامر جہاں کی سریلی سی چیخ لان میں گونجی اور جونہی عامر جہاں نئ نیچے دیکھا تو ایک میںڈک انکے پاوں نیچے آکر راہ رو عالم بقا ہو چکا تھا۔یہ روح فرسا منظر دیکھنا تھا کہ عامر جہاں چھلانگ مار کر قریب کھڑے عانر شہزاد بھائی کی گود میں چڑھ گئے اور انکے سر میں منہ چھپا کر منہ پھاڑ پھاڑ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر خسروو بھائی کو کچھ دیر پہلے کا دورہ پڑنا یاد آیا اور فورا" سے پیشتر انکا ہاتھ اپنے جوگر کی جانب گیا۔مگر عامر جہاں کی ٹیری نگاہوں نے خسرو بھائی کا ارادہ بھانپ لیا اور گھبرا کر عامر شہزاد بھائی کا سر جھنجھوڑ ڈالا۔
مگر یہ کیا عامر شہزاد بھائی کی وگ اتر کر ٹینی میاں کے ہاتھ میں آگئی۔اور عامر شہزاد جو اپنے بالوں کو بار بار سنوار رہے تھے اب اپنے چمکتے دمکتے چاند پہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔اور ٹینی میاں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا کر وہاں سے رفوچکر ہوگئے۔
عامر جہاں جونہی باورچی خانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عبداللہ کا سر پتیلے میں پھننسا ہوا اور یاز بھائی کبھی توا تو کبھی بیلنا لے کر عبداللہ کے سر کا طبلہ بجا رہے۔
اور دوسری جانب ہاشمی بھائی مزے سے کولڈ ڈرنکس کھول کھول کر ہر بوتل سے ایک سپ لے کر رکھتے جا رہے اور کہہ رہے آہ سواد آگیا ظالما کوکا کولا پی کے آج تے۔
عامر جہاں سے یہ منظر برداشت نہ ہوا اور جا کر کڑکدار لہجے میں بولنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ہاشمی بھائی یہ کیا ہو رہا یے۔
ہاشمی بھائی: بھائی یہ خدمت خلق ہو رہی۔میں چیک کر رہا ساری بوتلیں پی کر کہ کہیں کسی میں گیس کم تو نہیں۔ لے شہزادے تو بھی گھٹ لگا لے کوکا کولا کا۔اور اندھا کیا چاہے دو انکھیں کے مصداق ٹینی میاں بھی اس کارخیر میں شریک ہو گئے۔
تقریب شروع ہونے کو تھی لہذا سب حال میں جمع ہو چکے تھے۔ اسی دوران ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ کہ آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور اچانک سے اوپر لٹکتا فانوس ہلنے لگا۔جب سب نے اوپر نگاہ دوڑائی تو دیکھا تھر تھر کانپتے احمد لون ٹھاہ ٹھاہ کی جگہ تھلے لا تھلے لا (نیچے اتارو) کر رہے۔اور ساتھ ساتھ فانوس کے جھولے بھی لے رہے۔ ابھی سب احمد لون کے کرتب سے محظوظ ہو رہے تھے کہ شور اٹھا ٹیم بھاائی آ گئے۔
ٹیم بھائی کے ساتھ نہایت ہی شاعرانہ شان لیئے عمران نئیر بھائی تھے۔جو ہال میں داخل ہوتے ہی برق رفتاری سے ڈائس پر گئے اور فورا" سے اپنی ایک شیشے والی عینک ناک پر ٹکا کر کہنے لگے۔
اس سے پہلے کہ ٹیم بھائی کچھ کہیں میں ون اردو کے فراق میں لکھا اپنا ایک قطعہ پیش کرتا ہوں
سب لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے
عمران بھائی: جی تو عرض کیا یے
تیرے گھونگٹے کے آنگن میں
میں بیمار و قاتل و مقصود و حیات و پا گیا زندگی
جبر مسلسل حیات قابل و مقصود زنجیر امن و پیغام
تیری زلف کے سایے میں برہم عاشق۔۔۔۔۔
عمران بھائی: جی تو سمجھ آ رہی نا معزز ممبرز؟
اور جب تمام حاضرین کو اپنی جانب خشمگیں نگاہوں سے گھورتا پایا تو چپکے سے کھسک لیئے اور جاتے جاتے شاعرانہ شان میں بولے۔
داد چاہوں گا حاضرین۔اور دوڑکی لگا دی۔۔۔۔
اب اسکے بعد ٹیم بھائی کی ویلکم بیک ون اردو کے موضوع پر ایک تقریر ہوئی جسکا اختتام احمد لون بھائی کی زمین پر سیفلی لینڈنگ کی شکل میں ہوا۔
بس اسکے بعد ٹھاہ ٹھاہ بند ہو گئی اور راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔
تمام شد
Bookmarks