اب نہ شکوہ کرو ہوا سے جناب
بُجھ گیا دیپ تو بلا سے جناب
اُس گلی کا پتہ تمھیں کیسے؟
تم تو لگتے ہو پارسا سے جناب
ہاتھ ظالم کا اب رُکے بھی تو کیوں
لوگ ڈرتے نہیں خُدا سے جناب
کچھ تو اظہار بھی ضروری ہے
کام چلتا نہیں انا سے جناب
ہم بہت دیر تک نہیں سوئے
آپ نے کہہ دیا ادا سے“جناب“
پیار پلکوں میں چھُپ سکا ہے کبھی
یہ زیادہ ہے انتہا سے جناب
اُن سے ملنے کی بات اب نہ کرو
درد بڑھتا ہے اب دوا سے جناب
دفعتاً اجنبی ہوئے بھی تو کیوں؟
وہ جو لگتے تھے آشنا سے جناب
بات یہ آج کی نہیں ہے بتول
یہ محبٌت تو ہے سدا سے جناب
Bookmarks