rja_eman
26-09-2018, 08:57 PM
میرے پیارے لوگو
ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے
دو دن سے ڈیپریشن، اینزائیٹی اور سوسائڈ کے اوپر بہت سی پوسٹس نظر سے گزریں۔
اور ہر پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں "سب کچھ جاننے" کا سا انداز لئیے ہوئے کچھ لوگوں کے کمنٹس۔
mental health issues کسی بھی
میں مبتلا لوگوں کو کوئ کمزور، بزدل، حالات سے نظر چرانے والے، خوابوں کی دنیا میں رہنے والے تو کوئ 'نا شکرے' سے تعبیر کر رہا تھااور نہ جانے کیا کیا۔
ِیہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن۔۔۔
"ڈیپریشن دراصل اور کچھ نہیں بس 'ایمان کی کمزوری' کی نشانی ہے"
یہ وہ جملہ تھا جس نے دل و دماغ میں غدر مچا دیا۔
سارا وقت دماغ میں "ایمان کی کمزوری" ہی کنڈلی مارے بیٹھا رہا۔
کچھ لفظ کیسے وجود ہلا دینے والے ہوتے ہیں ناں۔
..دل کیا اس کمنٹ کا جواب دوں کہ لوگو ہتھ ہولا رکھا کرو..اتنے بڑے بڑے جملے..اتنے سفاک
جس چیز سے کبھی گزرے نہ ہوں اسکے بارے میں اتنے بڑے بڑے جملے نہیں بولا کرتے۔
جانے ان 'کمزور ایمان' والوں میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے ڈیپریشن کی انتہاوں میں کہ جب لفظ بھی گم ہو جاتے ہوں گے کہ جب چند لفظ بولنے پر بھی تھکن سے ہانپتے ہوں گے۔
انکی خالی آنکھوں نے حسرت سے آسمان کو کتنے لمحے تکا ہو گا۔
اللہ آپ تو سب جانتے ہیں ناں۔۔ان خالی آنکھوں کے سوال اللہ نے دیکھے ہوں گے۔
کتنے ہی ہوں گے جہنوں نے کئ کئ گھنٹے سجدے کی حالت میں گزارے ہوں گے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے۔اللہ مجھے بھی ان اندھیروں سے نکال جسطرح تو نے اپنے نبی یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا۔
اللہ مجھے بھی ان اندھیروں سے نکال جسطرح تو نے اپنے نبی یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا۔ مجھے بچا لے, سکینت دے دے" کی گردان کرتے ہوئے۔"
اور آپ کو کیا پتہ انہیں میں سے کسی 'کمزور ایمان' والے نے استغفار , آیت کریمہ کی تسبیحات سانسوں کے آنے جانے کی طرح کی ہوں گی۔
پر جائے نماز کی طرف لپکتا ہو گا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے لئیے۔ panic attack ہر
کئ کئ گھنٹے قرآن کی تلاوت کی ہو گی دل کی ویرانی ختم کرنے کے لئیے۔
کئ کئ دن مسلسل آنسووں سے اللہ سے فریاد کی ہو گی کہ بس آپ میرے سے نظر مت ہٹائیے گا۔
بس میرے ساتھ رہئیے گا, اپنے ہونے کا احساس بس رکھئیے گا۔ اللہ کو اسکا امتحان شائد اسطرح ہی مقصود ہو گا۔
اس امتحان کی وجہ سے ہی سہی اللہ کو اسکا یوں بھاگ بھاگ کے اپنی طرف آنا جانے کتنا پسند ہو گا۔
چاہے رونے کے لئیے ہی سہی۔
وہ اگر غلطی سے کبھی کسی کو کچھ بتا بھی بیٹھے۔ اس آس میں کہ شائد کوئ 'سننے' والا مل جائے
تو اسکو آپکا طنزیہ اور افسوس بھرے انداز میں کیا جانے والا سوال کہ
"ابھی تک اس غم سے نہیں نکلے؟؟؟ اس بیماری سے نہیں نکل سکے؟؟؟"
کتنے ہی خولوں میں سمیٹ جاتا ہو گا
اور اگلی دفعہ آپ سے تو کیا، کسی سے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں پائے گا کہ آپ تو فٹ فتوٰی جڑدیں گے
"اصل میں تم خود ہی اس بیماری سے نہیں نکلنا چاہتے"
اور بہت سوں کو تو پھر مر جانا آسان لگتا ہو گا۔ ایک تو درد کی انتہائیں اور اوپر سے کوئ ہاتھ بڑھا کر مدد کرنے والا بھی جب دور دور تک کوئ نہ دکھے۔
کیا کبھی آپ نے کسی کینسر کے مریض سے کہا کہ تم اس لئیے اس بیماری سے نہیں نکل پا ریے کہ تمہارا تو دراصل ایمان ہی کمزور ہے۔ اصل میں تم خود ہی ٹھیک ہونا نہیں چاہتے؟
جن کا ایمان اللہ پہ مضبوط ہو وہ کینسر میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو میرے پیارے لوگو یقین کیجئیے
جسطرح ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے اسطرح ہر دل الگ ہوتا ہے۔
اور ہر دل کو آزمانے کے, امتحان لینے کے اللہ کے طریقے الگ۔ ہر ایک کا پرچہ الگ۔
ایمان کی کمزوری، ناشکراپن، اور اللہ سے دوری کا ٹیگ لگانے سے پہلےبس یہ دیکھ لیا کریں کہ
اردگرد ماحول کتنا اور کس حد تک غیر فطری ہے۔ جب کبھی آپ کے نظامِ تعلیم نے غم کو برتنے کا۔
anxietyٹراما سے گزرنے کا طریقہ ہی نہ سکھایا ہو۔ جہاں اداسی، ڈیپریشن، غم اور
جیسے ایموشنز پر جی بھر کر شرمندہ کیا جاتا ہو۔
جہاں کیپٹلزم نے انسانوں کو میراتھن کا حصہ بنا دیا ہو۔
کا شکار ہو جانا کوئ ایسی انہونی بات تو نہیںmental health issues وہاں انسانوں کاتھکن کا روح تک آجانا
اور پھر جب انسان خود ہی اس دلدل سے نکلنے کا طریقہ ڈھونڈ رہا ہو تو کچھ وقت تو لگتا ہے ناں غم کی سائیکولوجی سمجھنے میں, اپنے تالے کی چابی ڈھونڈنے میں۔
کہ ایک ہی طریقہ, ایک ہی چابی ہر کسی کے لئیے نہیں ہوتی۔
اور کون جانے چابی مل جانے پہ یہی ٹوٹا ہوا تارا ماہ کامل بن جائے۔
ہی نہیں کرتی exist جو تکلیف آپکو کبھی نہیں آئ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس دنیا میں
غم کی شدتوں میں دل فارغ بالکل خالی بھی ہو جاتا ہےیہ تو قرآن بھی ہمیں بتاتا ہے۔
و اصبح فواد ام موسٰی فٰرغا۔ (سورةالقصص آیت10
و اشکو بثی و حزنی الی اللہ۔ وہ یعقوبؑ کا اپنے حزن کی کہانیاں اللہ کو سنانا۔
رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة۔ تکلیف کی شدتوں میں حضرت آسیہؓ کا اللہ کے پاس, بہت پاس جنت میں امن والے گھر کا سوال کرنا۔
رب انی مسنی الضر و انت ارحم الراحمین۔ حضرت ایوبؑ کا اللہ سے اپنی تکلیف کا حال کہنا۔
وہ ام سلمہؓ کا مکہ حجرت کے وقت بیٹے کا چھین لیا جانا اور ایک لمبے عرصے تک انکا روزانہ مدینہ میں مکہ سے آنے والے راستے کو بیٹھ کر تکتے رہنا اور رونا۔۔۔ یہاں تک کہ بیٹا واپس مل گیا۔
ان ہستیوں کو اللہ نے کبھی انکے ایموشنز کی وجہ سے شرمندہ نہیں کیا۔
ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔
ہمارے رب نے تو کچھ بھی بے وجہ نہیں بنایا۔
depressionاور anxietyموجودہ حالات میں اتنے لوگوں کا
کا شکار ہوتے جانا بتاتا تو ہے کہیں کچھ بہت بری طرح غلط ہے۔
جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
sufferersاور کیا پتہ انہیں
میں سے کوئ "چن" لیا جائے۔
غلط کو ٹھیک کرنے کے لئیے۔
تو بس گرے ہووں کو ہاتھ بڑھا کر تھامنے کا
اپنی طاقت کے مطابق ہنر سیکھنا شروع کر دیں۔ زخموں پہ مرہم لگانے کا ہنر۔ مرہم پٹی کرنے کا ہنر۔
کسی ایک کو بچا لیں مضبوط ایمان والو۔ شائد یہی حجت بن جائے۔
Jawaria Saeedڈاکٹر
نے اپنے سیمینار میں حدیث 'جس نے ایک انسان کی جان بچائ اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا' کا بہت ہی منفرد اور الگ اینگل سے مطلب سمجھایا۔
کہ اپنے درد کو ختم کرنے کے لئیے خودکشی کے لئیے تیار شخص کو بچا لینا۔ کسی کو سن لینا بغیر کوئ مشورہ یا فتوی دئیے۔ کسی کو اسکے ڈیپریشن کی انتہاوں پہ میسر آجانا۔ بار بار میسر آ جانا۔
اللہ ہمیں مرہم پٹی کا ہنر سکھا دیں۔
آسانیاں پیدا کرنے والا بنا دیں۔آمین
نائلہ صادق
ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے
دو دن سے ڈیپریشن، اینزائیٹی اور سوسائڈ کے اوپر بہت سی پوسٹس نظر سے گزریں۔
اور ہر پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں "سب کچھ جاننے" کا سا انداز لئیے ہوئے کچھ لوگوں کے کمنٹس۔
mental health issues کسی بھی
میں مبتلا لوگوں کو کوئ کمزور، بزدل، حالات سے نظر چرانے والے، خوابوں کی دنیا میں رہنے والے تو کوئ 'نا شکرے' سے تعبیر کر رہا تھااور نہ جانے کیا کیا۔
ِیہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن۔۔۔
"ڈیپریشن دراصل اور کچھ نہیں بس 'ایمان کی کمزوری' کی نشانی ہے"
یہ وہ جملہ تھا جس نے دل و دماغ میں غدر مچا دیا۔
سارا وقت دماغ میں "ایمان کی کمزوری" ہی کنڈلی مارے بیٹھا رہا۔
کچھ لفظ کیسے وجود ہلا دینے والے ہوتے ہیں ناں۔
..دل کیا اس کمنٹ کا جواب دوں کہ لوگو ہتھ ہولا رکھا کرو..اتنے بڑے بڑے جملے..اتنے سفاک
جس چیز سے کبھی گزرے نہ ہوں اسکے بارے میں اتنے بڑے بڑے جملے نہیں بولا کرتے۔
جانے ان 'کمزور ایمان' والوں میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے ڈیپریشن کی انتہاوں میں کہ جب لفظ بھی گم ہو جاتے ہوں گے کہ جب چند لفظ بولنے پر بھی تھکن سے ہانپتے ہوں گے۔
انکی خالی آنکھوں نے حسرت سے آسمان کو کتنے لمحے تکا ہو گا۔
اللہ آپ تو سب جانتے ہیں ناں۔۔ان خالی آنکھوں کے سوال اللہ نے دیکھے ہوں گے۔
کتنے ہی ہوں گے جہنوں نے کئ کئ گھنٹے سجدے کی حالت میں گزارے ہوں گے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے۔اللہ مجھے بھی ان اندھیروں سے نکال جسطرح تو نے اپنے نبی یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا۔
اللہ مجھے بھی ان اندھیروں سے نکال جسطرح تو نے اپنے نبی یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا۔ مجھے بچا لے, سکینت دے دے" کی گردان کرتے ہوئے۔"
اور آپ کو کیا پتہ انہیں میں سے کسی 'کمزور ایمان' والے نے استغفار , آیت کریمہ کی تسبیحات سانسوں کے آنے جانے کی طرح کی ہوں گی۔
پر جائے نماز کی طرف لپکتا ہو گا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے لئیے۔ panic attack ہر
کئ کئ گھنٹے قرآن کی تلاوت کی ہو گی دل کی ویرانی ختم کرنے کے لئیے۔
کئ کئ دن مسلسل آنسووں سے اللہ سے فریاد کی ہو گی کہ بس آپ میرے سے نظر مت ہٹائیے گا۔
بس میرے ساتھ رہئیے گا, اپنے ہونے کا احساس بس رکھئیے گا۔ اللہ کو اسکا امتحان شائد اسطرح ہی مقصود ہو گا۔
اس امتحان کی وجہ سے ہی سہی اللہ کو اسکا یوں بھاگ بھاگ کے اپنی طرف آنا جانے کتنا پسند ہو گا۔
چاہے رونے کے لئیے ہی سہی۔
وہ اگر غلطی سے کبھی کسی کو کچھ بتا بھی بیٹھے۔ اس آس میں کہ شائد کوئ 'سننے' والا مل جائے
تو اسکو آپکا طنزیہ اور افسوس بھرے انداز میں کیا جانے والا سوال کہ
"ابھی تک اس غم سے نہیں نکلے؟؟؟ اس بیماری سے نہیں نکل سکے؟؟؟"
کتنے ہی خولوں میں سمیٹ جاتا ہو گا
اور اگلی دفعہ آپ سے تو کیا، کسی سے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں پائے گا کہ آپ تو فٹ فتوٰی جڑدیں گے
"اصل میں تم خود ہی اس بیماری سے نہیں نکلنا چاہتے"
اور بہت سوں کو تو پھر مر جانا آسان لگتا ہو گا۔ ایک تو درد کی انتہائیں اور اوپر سے کوئ ہاتھ بڑھا کر مدد کرنے والا بھی جب دور دور تک کوئ نہ دکھے۔
کیا کبھی آپ نے کسی کینسر کے مریض سے کہا کہ تم اس لئیے اس بیماری سے نہیں نکل پا ریے کہ تمہارا تو دراصل ایمان ہی کمزور ہے۔ اصل میں تم خود ہی ٹھیک ہونا نہیں چاہتے؟
جن کا ایمان اللہ پہ مضبوط ہو وہ کینسر میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو میرے پیارے لوگو یقین کیجئیے
جسطرح ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے اسطرح ہر دل الگ ہوتا ہے۔
اور ہر دل کو آزمانے کے, امتحان لینے کے اللہ کے طریقے الگ۔ ہر ایک کا پرچہ الگ۔
ایمان کی کمزوری، ناشکراپن، اور اللہ سے دوری کا ٹیگ لگانے سے پہلےبس یہ دیکھ لیا کریں کہ
اردگرد ماحول کتنا اور کس حد تک غیر فطری ہے۔ جب کبھی آپ کے نظامِ تعلیم نے غم کو برتنے کا۔
anxietyٹراما سے گزرنے کا طریقہ ہی نہ سکھایا ہو۔ جہاں اداسی، ڈیپریشن، غم اور
جیسے ایموشنز پر جی بھر کر شرمندہ کیا جاتا ہو۔
جہاں کیپٹلزم نے انسانوں کو میراتھن کا حصہ بنا دیا ہو۔
کا شکار ہو جانا کوئ ایسی انہونی بات تو نہیںmental health issues وہاں انسانوں کاتھکن کا روح تک آجانا
اور پھر جب انسان خود ہی اس دلدل سے نکلنے کا طریقہ ڈھونڈ رہا ہو تو کچھ وقت تو لگتا ہے ناں غم کی سائیکولوجی سمجھنے میں, اپنے تالے کی چابی ڈھونڈنے میں۔
کہ ایک ہی طریقہ, ایک ہی چابی ہر کسی کے لئیے نہیں ہوتی۔
اور کون جانے چابی مل جانے پہ یہی ٹوٹا ہوا تارا ماہ کامل بن جائے۔
ہی نہیں کرتی exist جو تکلیف آپکو کبھی نہیں آئ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس دنیا میں
غم کی شدتوں میں دل فارغ بالکل خالی بھی ہو جاتا ہےیہ تو قرآن بھی ہمیں بتاتا ہے۔
و اصبح فواد ام موسٰی فٰرغا۔ (سورةالقصص آیت10
و اشکو بثی و حزنی الی اللہ۔ وہ یعقوبؑ کا اپنے حزن کی کہانیاں اللہ کو سنانا۔
رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة۔ تکلیف کی شدتوں میں حضرت آسیہؓ کا اللہ کے پاس, بہت پاس جنت میں امن والے گھر کا سوال کرنا۔
رب انی مسنی الضر و انت ارحم الراحمین۔ حضرت ایوبؑ کا اللہ سے اپنی تکلیف کا حال کہنا۔
وہ ام سلمہؓ کا مکہ حجرت کے وقت بیٹے کا چھین لیا جانا اور ایک لمبے عرصے تک انکا روزانہ مدینہ میں مکہ سے آنے والے راستے کو بیٹھ کر تکتے رہنا اور رونا۔۔۔ یہاں تک کہ بیٹا واپس مل گیا۔
ان ہستیوں کو اللہ نے کبھی انکے ایموشنز کی وجہ سے شرمندہ نہیں کیا۔
ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔
ہمارے رب نے تو کچھ بھی بے وجہ نہیں بنایا۔
depressionاور anxietyموجودہ حالات میں اتنے لوگوں کا
کا شکار ہوتے جانا بتاتا تو ہے کہیں کچھ بہت بری طرح غلط ہے۔
جس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
sufferersاور کیا پتہ انہیں
میں سے کوئ "چن" لیا جائے۔
غلط کو ٹھیک کرنے کے لئیے۔
تو بس گرے ہووں کو ہاتھ بڑھا کر تھامنے کا
اپنی طاقت کے مطابق ہنر سیکھنا شروع کر دیں۔ زخموں پہ مرہم لگانے کا ہنر۔ مرہم پٹی کرنے کا ہنر۔
کسی ایک کو بچا لیں مضبوط ایمان والو۔ شائد یہی حجت بن جائے۔
Jawaria Saeedڈاکٹر
نے اپنے سیمینار میں حدیث 'جس نے ایک انسان کی جان بچائ اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا' کا بہت ہی منفرد اور الگ اینگل سے مطلب سمجھایا۔
کہ اپنے درد کو ختم کرنے کے لئیے خودکشی کے لئیے تیار شخص کو بچا لینا۔ کسی کو سن لینا بغیر کوئ مشورہ یا فتوی دئیے۔ کسی کو اسکے ڈیپریشن کی انتہاوں پہ میسر آجانا۔ بار بار میسر آ جانا۔
اللہ ہمیں مرہم پٹی کا ہنر سکھا دیں۔
آسانیاں پیدا کرنے والا بنا دیں۔آمین
نائلہ صادق